اعلی درجے کی تلاش

شیعوں کے عقیدہ کے مطابق اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ، غدیر میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے جو حضرت علی علیہ السلام  کی ولایت کا اعلان کیا گیا، اس کے بارے میں غدیر سے پہلے اور اس کے بعد بھی متعدد بار آنحضرت{ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے توسط سے تاکید کی گئی ہے[1]- یہ ولایت ان تمام موارد پر مشتمل ہے، جن کی ولایت پیغمبراسلام {صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کو حاصل تھی اور چونکہ پیغمبراسلام{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} نے حکومت کو تشکیل دیا ہے، اس لیے اس میں کوئی شک نہیں ہے، کہ آپ{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی ولایت کے ابعاد میں سے ایک بعد سیاسی تھا-

لیکن اگر ہم آپ کے سوال کی گہرائی کو جاننا چاہئیں، تو کہنا چاہئیے کہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور خلافت اس کے حقدار کو نہ ملنے کے پیش نظر، آئیندہ نسل کے لوگوں کے لیے یہ امر قابل توجیہ نہیں تھا، کہ اس قدر تاکیدات،، وضاحتوں اور کنایوں کے باوجود کہ جن سے امیرالمومنین علیہ السلام کی بلافصل خلافت ثابت ہوتی ہے،پھر بھی حکومت دوسروں کے ہاتھوں میں قرار پائی؛ اس بنا پر جو مولفین حاکم طبقہ کی فکر اور نقطہ نظرکی طرف تمایل اور رجحان رکھتے تھے، نے اپنی تالیفات میں کوشش کی ہے تاکہ حتی الامکان، امیرالمومنین علیہ السلام کے امتیازات کو ذکر نہ کریں یا ان میں سے بعض منتخبہ امتیازات کی طرف صرف اشارہ کریں اور یا اگر کوئی متواتر اور قابل قبول حدیث موجود تھی، جس کو ذکر نہ کرنے سے مولف کی علمی حیثیت کو نقصان پہنچتا، تو اس کی توجیہ و تاویل کرنے لگے ہیں اور اس کی ایسی تفسیر کی ہے تاکہ اس کے اپنے عقائد کے ساتھہ ہم آہنگ ہو- حدیث غدیر ایک ایسی حدیث ہے، جس میں مکمل طور پر سنسر {censor } کرنے کا امکان نہیں پایا جاتا ہے، اس کے بعض حصے، اہل سنت کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں[2]، اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے امام علی علیہ السلام کی ولایت کی صراحت ان مطالب میں سے ہے اور اکثر ان کتابوں میں اس کی تائید کی گئی ہے- واضح ہے کہ اس قسم کی روایت کا اس صراحت اور واضح طور پر مطالعہ، قارئین کے کے لیے یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ پس پیغمبراکرم{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی فرمائش کے باوجود کیوں حکومت حضرت علی علیہ السلام کے اختیار میں قرار نہیں پائی؟؛ یہاں پر توجیہ کرنے والوں نے میدان میں اتر کر حدیث غدیر میں ذکر ہوئی ولایت کو عرفانی ولایت ، دوستی اور محبت کی تفسیر کی ہے اور سیاسی ولایت کو اس سے الگ کیا ہے؛؛ اس قسم کی توجیہات اس قسم کی دوسری احادیث کے بارے میں بھی کی گئی ہیں- نمونہ کے طور پر، بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} نے علی{علیہ السلام} کو حضرت ہارون{ع} کے مانند معرفی فرمایا ہے، یعنی یہ کہ وہ پیغمبر{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے وزیر ہیں اور وزیر و نائب دو الگ الگ چیزیں ہیں؛؛ اس بنا پر علی {علیہ السلام} آپ{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے نائب نہیں ہیں، بلکہ صرف آپ{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی حیات کے دوران ، آپ{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے وزیر تھے اور آنحضرت{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی رحلت کے ساتھہ ہی علی{علیہ السلام} کی وزارت کا دور بھی ختم ہوا ہے؛؛

اب ہم صرف اہل سنت کی کتابوں سے استناد کرتے ہوئے یہ بحث شروع کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں شیعوں کے اعتقادات سے صرف نظر کرتے ہیں- غدیر میں سب سے پہلے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں سے سوال فرمایا: مومنین پر خود ان سے زیادہ سزاوار کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا : خدا اور اس کے رسول{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} ہیں؛ اس سوال و جواب کے بعد پیغمبراسلام{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} نے علی{علیہ السلام} کو اپنے ہم پلہ اعلان کرتے ہوئے فرمایا:" جس جس پر میں ولایت رکھتا ہوں، علی {علیہ السلام} بھی اس پر ولایت رکھتے ہیں"- دلچسپ بات ہے کہ حضرت عمر نے اس ماجرا کے بعد امیرالمومنین{علیہ السلام} سے عرض کی کہ اے ابن ابیطالب؛ مبارک ہو آپ پر کہ آپ ہر مرد اور عورت کے مولیٰ بن گئے ہیں[3]؛

ایک اور ماجرا، جس کی علمائے اہل سنت نے تائید کی ہے اور ان کی قابل اعتبار کتابوں میں بیان ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ جب پیغمبراسلام{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} جنگ تبوک پر جانے کے لیے آمادہ ہوئے تو علی{علیہ السلام} کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا- امیرالمومنین{علیہ السلام} غمگین ہوئے اور پیغمبراسلام{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی خدمت میں عرض کی کہ کیا مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ {اور  مجھے اس جہاد میں شرکت کرنے سے محروم فرماتے ہیں؟} پیغمبراسلام{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} نے جواب میں فرمایا: کیا آپ پسند نہیں کرتے ہیں کہ آپ میرے لیے موسی{علیہ السلام} کے لیے ہارون کے مانند ہوں؟ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے[4]؟؛ یہاں پر قابل ذکر بات ہے کہ اگر بالفرض غدیر میں عرفانی ولایت مدنظر تھی، تو یہاں پر سیاسی ولایت کے علاوہ کسی اور ولایت کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے-

ان دو واقعات کے مضامین اور مطالب پر غور کرنے کے بعد ہم قارئین سے دو بنیادی سوال پوچھنا چاہتے ہیں:

۱۔ کیا پیغمبراسلام{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کا مسلمانوں سے یہ سوال کرنا کہ آپ پر خود آپ سے کون زیادہ سزاوار ہے؟ صرف عرفانی رابطہ کے بارے میں تھا اور سیاسی ولایت پر مشتمل نہیں تھا؟ تاکہ اس کے بعد بیان کی گئی علی علیہ السلام کی ولایت کو ہم صرف عرفانی ولایت جان لیں؟؛

۲۔ اگر پہلے سوال کا جواب منفی ہو اور ہم حدیث غدیر میں ذکر کی گئی ولایت کو تمام امور پر مشتمل جانیں، تو مسئلہ حل ہے، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ غدیر میں اعلان کی گئی ولایت، صرف عرفانی ولایت تھی، تو ہم دوسرا سوال پوچھتے ہیں کہ پیغمبراکرم{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے بعد ہمارے پاس ایک ایسا شخص موجود ہے ، جو عرفان کے لحاظ سے ایک بلند مرتبہ پر فائز تھا اور فوجی لحاظ سے بھی پیغمبراکرم{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کا شجاع ترین سپاہی اور سپہ سلار شمار ہوتا تھا اور سیاسی لحاظ سے بھی پیغمبراکرم{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی زندگی کے آخری دنوں میں جنگ تبوک کے دوران شہر مدینہ میں، آنحضرت{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کا جانشین مقرر ہوا تھا اور اس کے علاوہ ایک مدت تک یمن کے علاقہ میں زمامداری سنبھال چکا تھا، اس بنا پر وہ ہر لحاظ سے حکومت چلانے کی قابلیت و صلاحیت رکھتا تھا اور دوسری جانب سے ان کے مقابل والی پارٹی کے افراد اعتقاد رکھتے تھے کہ پیغمبراکرم{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} نے کسی خاص شخص کو اپنے بعد خلافت کے لیے منصوب نہیں کیا ہے تاکہ امیرالمومنین{علیہ السلام} کی بیعت کرنا رسول خدا {صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے حکم کی نافرمانی شمار ہوتی اور اس کے علاوہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اہل سنت کی کتابوں میں اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ مسلمانوں پر عرفانی ولایت رکھنے والے اس عارف کامل نے، پیغمبراکرم{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے بعد اقتدار پر بیٹھنے والے شخص کے خلاف اپنی مخالفت کا اعلان کیا اور کم از کم چھہ ماہ تک اس کی بیعت نہیں کی[5]، کیا اس سلسلہ میں اس کے عرفان کو اہمیت نہیں دی جانی چاہئیے، اور کیا اس کے نظریات کے بارے میں بے توجہی برتنا پیغمبراسلام{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے دستورات کی نافرمانی شمار نہیں ہوتی ہے؟ اور اگر اس قسم کے اہم مسئلہ کے بارے میں ہم، عرفانی ولایت رکھنے والے کی بات کو نہ مانیں، تو اس کی عرفانی ولایت کا کیا فائدہ؟؛؛

اس بنا پر غدیر میں اعلان کی گئی ولایت خواہ عرفانی ہو یا سیاسی، توجیہ کرنے والوں کے لیے بہانہ نہیں بن سکتی ہے کہ امام علی{علیہ السلام} کے لیے خلافت تک پہنچنے میں اسے رکاوٹ قرار دیں- اس کے باوجود ہم معتقد ہیں کہ اس سلسلہ میں حضرت علی{علیہ السلام} عرفانی ولایت کے بھی مالک تھے اور سیاسی ولایت کی بھی صلاحیت رکھتے تھے، جیسا کہ پیغمبراسلام{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} میں بھی یہی خصوصیات تھیں اور اس قسم کی تفکیک نہ پیغمبر{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کے لیے معنی رکھتی ہے اور نہ اس کے لیے جسے آنحضرت{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} نے مقرر فرمایا تھا اور کیا بنیادی طور پر ایک ایسے شخص کے ہوتے ہوئے، کہ جو پیغمبراکرم{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی فرمائش کے مطابق پیغمبری کے علاوہ تمام خصوصیات کا مالک تھا، پیغمبراکرم{صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی جانشینی کا عہدہ ان کے علاوہ کسی اور کو سونپنا عجیب نہیں لگتا ہے؟؛؛

 

 

[1] - یوم الدار، روز مباہلہ میں، جنگ تبوک میں اور یمن میں ان کی فرماں روائی کے دوران بعض لوگوں کے اعتراض کے موقع پر ... .

[2] - به عنوان نمونه: احمد بن حنبل ، المسند، ج 1، ص 119-118، دار صادر، بیروت، ابن ماجه قزوینی، السنن، ج1، صص 45-43 ، دار الفکر، بیروت و صحیح ترمذی ، 1403 ه ق، ج 5، ص 297، دار الفکر، بیروت و .... . 

غدیر کی رویات کا مطالعہ کرنے کے لیے علامہ امینی کی کتاب "الغدیر" ملاخطہ ہو، کیونکہ انہوں نے کافی کوشش کر کے اہل سنت کی قابل اعتبار کتابوں سے حوالے بیان کیے ہیں.     

[3] - احمد بن حنبل، مسند، ج 4، ص 281، دار صادر، بیروت. 

[4] - بخاری، صحیح ، 1401 ه ق، ج 5، ص 129، دار الفکر، بیروت. 

[5] - ر. ک : بخاری ، صحیح، ج 5 ، صص 82 و  83 .

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا